خلائی شٹل ڈسکوری کو عجائب گھر منتقل کردیا گیا


شٹل کی عجائب گھر میں شمولیت کے موقع پر منعقدہ تقریب میں 1962ء میں زمین کے مدار تک جانے والے پہلے امریکی خلاباز اور سابق سینیٹر جان گلین سمیت ماضی میں ‘ڈسکوری ‘ پہ سفر کرنے والے کئی خلاباز بھی شریک ہوئے.
امریکی خلائی پروگرام سے گزشتہ برس سبکدوش کی جانے والی خلائی شٹل ‘ڈسکوری’ کو بالآخر عوامی نمائش کے لیے واشنگٹن کے ایک عجائب گھر میں رکھ دیا گیا ہے۔
خلائی شٹل جمعرات کو واشنگٹن کے نواح میں واقع ‘نیشنل ایئر اینڈ اسپیس میوزیم’ سے منسلک ‘ادور ہیزی سینٹر’Udvar-Hazy Center منتقل کیا گیا جو اب اس کا مستقل ٹھکانہ ہوگا۔
شٹل کی عجائب گھر میں شمولیت کے موقع پر منعقدہ تقریب میں 1962ء میں زمین کے مدار تک جانے والے پہلے امریکی خلاباز اور سابق سینیٹر جان گلین سمیت ماضی میں ‘ڈسکوری ‘ پہ سفر کرنے والے کئی خلاباز بھی شریک ہوئے۔
اٹھائیس سال پرانی خلائی شٹل منگل کو ریاست فلوریڈا کے ‘کینیڈی اسپیس اسٹیشن’ سے واشنگٹن پہنچی تھی۔ ‘ڈسکوری’ نے اپنا آخری سفر امریکی خلائی ادارے ‘ناسا’ کے ‘بوئنگ 747’ جمبو جہاز کی پشت پر طے کیا تھا۔
جہاز سے بندھی خلائی شٹل کو واشنگٹن کے کئی اہم عوامی مراکز کے اوپر سے بھی گزارا گیا تھا تاکہ عوام اس شٹل کا نظارہ کر سکیں۔ بعد ازاں یہ جہاز شمالی ورجینیا کے ‘ڈلاس انٹرنیشنل ایئرپورٹ’ پر اتر گیا تھا جہاں سے شٹل کو واشنگٹن کے نواح میں واقع عجائب گھر کے ذیلی مرکز منتقل کیا گیا۔
واضح رہے کہ واشنگٹن کے مرکزی حصے میں واقع ‘ایئر اینڈ اسپیس میوزیم’ کا شمار دنیا کے مصروف ترین عجائب گھروں میں ہوتا ہے۔ جب کہ ہر برس لگ بھگ 10 لاکھ سے زیادہ لوگ عجائب گھر سے منسلک ‘ادور ہیزی سینٹر’ کا دورہ کرتے ہیں۔
‘ڈسکوری’ 1984ء میں ‘ناسا’ کے خلائی بیڑے میں شامل کی گئی تھی اور اس نے خلا کے کل39 سفر کیے جو امریکی خلائی ادارے کی کسی بھی دوسری خلائی شٹل سے زیادہ ہیں۔
خلائی محاذ پہ کئی اہم کارنامے ‘ڈسکوری’ سے موسوم ہیں جن میں 1990ء میں ‘ہبل ٹیلی اسکوپ’ کو خلا میں پہنچانا اور بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پہ لنگر انداز ہونے والی پہلی شٹل ہونے کا اعزاز حاصل کرنا شامل ہیں۔
سنہ 1998ء میں سابق خلا باز اور اس وقت کے امریکی سینیٹر جان گلین ایک بار پھر ‘ڈسکوری ‘ کے ذریعے ہی خلا میں گئے تھے۔ یہ سفر کرکے 77 سالہ گلین نے خلا میں جانے والے معمر ترین شخص کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔
نوے کی دہائی میں ‘ناسا’ کے دو خلائی جہازوں کی تباہی کے بعد معطل ہونے والی خلائی پروازوں کی بحالی بھی ‘ڈسکوری’ ہی کے خلائی سفر کے ذریعے ہوئی تھی۔
یاد رہے کہ ‘ناسا’ نے گزشتہ برس خلائی جہازوں کی پروازیں ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے خلائی جہازوں کا بیڑہ سبکدوش کردیا تھا جن میں ‘ڈسکوری’ کے علاوہ ‘اٹلانٹس’ اور ‘اینڈیور’ نامی خلائی جہاز شامل تھے۔
‘ڈسکوری’ کو لاس اینجلس کے ‘سائنس میوزیم’ کی زینت بنایا جائے گا جب کہ شٹل ‘اٹلانٹس’ بدستور ‘کینیڈی اسپیس اسٹیشن’ پر عوامی نظارے کے لیے موجود رہے گی۔
‘ڈسکوری’ ‘ادور ہیزی سینٹر’ میں پہلے سے موجود امریکہ کے پہلے خلائی جہاز ‘اینٹر پرائز’ کی جگہ لے رہی ہے۔ ‘اینٹرپرائز درحقیقت ایک تربیتی جہاز تھا جس نے کبھی خلا کا سفر نہیں کیا۔
‘اینٹر پرائز’ کو آئندہ ہفتے اس کی نئی قیام گاہ نیویارک شہر کے ‘انٹریپڈ سی، ایئر اینڈ اسپیس میوزیم’ منتقل کیا جارہا ہے۔

بشکریہ

http://urdu.co/news/science-and-technology/

دنیا کی بلند ترین چوٹی پر ویب کیمرہ نصب


کھٹمنڈو: نیپال میں کوہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلہ میں دنیا کی بلند ترین چوٹی پر ویب کیمرہ نصب کر دیا گیا ۔ اس سے سائنسدانوں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے پڑنے والے اثرات کا مطالعہ کرنے میں مدد ملے گی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کوہ ہمالیہ کی 5675 میٹر بلند چوٹی پر سولر پاور کیمرہ نصب کیا گیا ہے اسے دن کی روشنی میں استعمال کیا  جائے گا۔ اس سے پہلے ارجنٹائن میں ریکون کاگو پہاڑی سلسلہ میں 389 میٹر بلندی پر ویب کیم نصب تھا ۔

اس ویب کیم کے ذریعے 8848 میٹر بلند چوٹی مائونٹ ایورسٹ پر موسمی تبدیلیوں کی تصاویر حاصل کی جائیں گی جبکہ ان تصاویر کا موسمیاتی تبدیلیوں کے ماہر تجزیہ کرینگے ۔

نوبل پرائز2011

انسانی جسم کے مدافعتی نظام پر تحقیق کرنے والے تین سائنس دانوں کو طب کے شعبے میں 2011ء کے ‘نوبیل’ انعام کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔

سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم  میں پیر کو کیے گئے اعلان کے مطابق  امریکہ کے بروس بوئٹلر، لگسمبرگ کے جولیس ہوفمین اور کینیڈا کے رالف اسٹینمن مشترکہ طور پر طب کے شعبے میں سالِ رواں  کے ‘نوبیل ایوارڈ’ کے حق دار قرار پائے ہیں۔

بدقسمتی سے ڈاکٹر اسٹینمن اس اعلان سے صرف تین روز قبل ہی کینسر سے انتقال کرگئے۔ انکی عمر 68 سال تھی۔ نوبیل پرائز کمیٹی کا کہنا ہے کہ اعلان سے پہلے اسے ڈاکٹر اسٹینمن کی موت کی خبر نہیں تھی۔

ایوار ڈ کے ساتھ ملنے والی لگ بھگ 15 لاکھ ڈالر کی رقم  کا نصف اسٹینمن کو ملے گا جبکہ بقیہ نصف بٹلر اور ہوفمین کے درمیان تقسیم ہوگی۔

تینوں سائنس دانوں کو یہ اعزاز انسانی جسم کے مدافعتی نظام پر کی گئی ان کی تحقیق  کے اعتراف میں دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں کینسر اور دیگر بیماریوں کے علاج کے نئے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔

سوئیڈن کی ‘رائل اکیڈمی آف سائنسز’ کی جانب سے طبیعیات اور کیمیا کے شعبوں کے ‘نوبیل’ انعامات کا اعلان بالترتیب پیر اور منگل کو کیا جائے گا۔ جبکہ رواں برس معاشیات  کے شعبہ  میں دنیا کے اس اعلیٰ ترین اعزاز   کے حق دار کا اعلان 10 اکتوبر  کو ہوگا۔

سالِ رواں کے لیے امن کے ‘نوبیل انعام’ کا اعلان جمعہ کو کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ ہر برس مختلف شعبہ جات میں دیے جانے والے یہ ‘نوبیل’ اعزازات سوئیڈن سے تعلق رکھنے والے متمول سائنس دان  اور ‘ڈائنامائیٹ’ کے موجد الفریڈ نوبیل  سے منسوب ہیں اور ان  کا آغاز 1901ء میں کیا گیا تھا۔

اب تک امن کے 91 ‘نوبیل’ اعزازات دیے جاچکے ہیں جبکہ 19 مواقع پر ایوارڈ کمیٹی اس  فیصلے پر پہنچی کہ اس برس  اعزا ز کے معیار پر پورا اترنے والا کوئی امیدوار موجود نہیں۔

‘انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس’ اب تک سب سے زیادہ یعنی کل تین ‘نوبیل’ امن اعزازات حاصل کرچکی ہے۔

‘نوبیل پِیس پرائز’ کی تاریخ میں ایک بار ایسا بھی ہوا ہے جب انعام کے حق دار قرار دیے گئے ایک فرد نے یہ اعزاز ٹھکرا دیا تھا۔ ایوارڈ کمیٹی نے 1973ء میں ویتنام کے سیاست دان لی ڈک ٹھو اور اس وقت کے امریکی وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر کو امن کے ‘نوبیل’ انعام دینے کا اعلان کیا تھا تاہم ٹھو نے یہ اعزاز وصول کرنے سے انکار کردیا تھا۔

شدید سمندری طوفانوں کی سائنس

سمندری طوفان اُس وقت بنتے ہیں جب کسی ایک علاقے میں ہوا کا درجہٴ حرارت نزدیکی علاقے کے درجہٴ حرارت سے مختلف ہوجاتا ہے۔ گرم ہوا سطحِ آب سے بلند ہونے لگتی ہے جب کہ سرد ہوا نیچے کا رُخ کرتی ہے ، اور یوں، ماحولیاتی دباؤ میں فرق آجاتا ہے

گذشتہ دِنوں امریکہ اور ایشیا میں شدید سمندری طوفان آئے۔ بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان بھی ہوا۔

بحرِ ہند کے اوپر ڈولپ ہونے والے طوفانوں کو’سائکلون‘ کہتے ہیں، شمال مشرقی بحر الکاہل پر بننے والے طوفان ’ٹائفون‘ کہلاتے ہیں، جب کہ مشرقی بحر الکاہل اور بحیرہٴ اوقیانوس کے اوپر بننے والےطوفانوں کو ’ہریکینز‘کا نام دیا جاتا ہے۔

اِن قدرتی آفات کو صدیوں سے انسانی نام دیے جاتے ہیں۔ آسٹریلیا کے ایک سائنس داں نے انیسویں صدی کے اختتام سے قبل اِن طوفانوں کو عورتوں کا نام دینا شروع کیا اور امریکہ میں ماہرینِ موسمیات نے 1953ء میں طوفانوں کے لیے خواتین کا نام استعمال کرنا شروع کردیا۔ لیکن، 1979ء میں مردوں کا نام بھی استعمال کیا جانے لگا۔

سمندری طوفان اُس وقت بنتے ہیں جب کسی ایک علاقے میں ہوا کا درجہٴ حرارت نزدیکی علاقے کے درجہٴ حرارت سے مختلف ہوجاتا ہے۔ گرم ہوا سطحِ آب سے بلند ہونے لگتی ہے جب کہ سرد ہوا نیچے کا رُخ کرتی ہے ، اور یوں، ماحولیاتی دباؤ میں فرق آجاتا ہے۔

اگر دباؤ بڑے علاقے کے اوپر تبدیل ہوتا ہے تو ہوائیں ایک بڑے دائرے کی شکل میں چلنے لگتی ہیں۔زیادہ دباؤ والی ہوا کم دباؤ والے مرکز کی طرف  کھچنے لگتی ہے۔ گہرے بادل بنتے ہیں اور شدید بارش ہوتی ہے۔

اُس وقت، طوفان بھی مزید شدید ہوجاتے ہیں جب وہ گرم سمندری پانیوں کے اوپر حرکت کرتے ہیں۔

انتہائی شدید سمندری طوفانوں میں ہواؤں کی رفتار 250کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہوسکتی ہے۔ 50سینٹی میٹر تک  بارش ہوسکتی ہے۔ بعض طوفانوں میں تو 150سینٹی میٹر بارش بھی ہوتی ہے۔

اِن طوفانوں کی وجہ سے سمندری لہروں میں بھی شدت آجاتی ہے اور بعض اوقات پانی کی موجیں چھ میٹر کی اونچائی تک پہنچ جاتی ہیں اور نشیبی ساحلی علاقوں میں سیلاب آجاتا ہے۔

امریکہ کے مقام میامی میں نیشنل ہریکین سینٹر شدید طوفانوں پر گہری نظر رکھتا ہے۔یہ سینٹر سرکاری عہدے داروں اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی مدد سے لوگوں کو معلومات بہم پہنچاتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ طوفان کے بارے  میں جلدی دی جانے والی اطلاعات کے نتیجے میں حالیہ برسوں میں ہلاکتوں کی تعداد میں کمی ہوگئی۔

موسمیاتی ماہر موسمی ماڈل تشکیل کرنے کے لیے کمپیوٹر پروگرام استعمال کرتے ہیں۔ اِن سے پتا چلتا ہے کہ طوفان کی سمت کیا ہوسکتی ہے۔

اِن پروگراموں میں درجہٴ حرارت،  ہوا کی رفتار، ماحولیاتی دباؤ اور ماحول میں پانی  کی مقدار یعنی نمی کے تناسب  کے بارے میں معلومات موجود ہوتی ہیں۔

سائنس داں یہ معلومات سیٹلائیٹس ، ویدر بیلونس اور سمندر میں بہتے ہوئے آلات سے حاصل کرتے ہیں۔

اُنھیں یہ معلومات بحری جہازوں، مسافر بردار طیاروں اور دوسری پروازوں سے بھی ملتی ہیں۔

سرکاری سائنس داں خصوصی آلات سے آراستہ جہازوں میں طوفان کے اندر اور  گرد اُڑان بھرتے ہیں، عملے کے افراد پیراشوٹ سے بندھے آلات گراتے ہیں اور اِن آلات کی مدد سے درجہٴ حرارت دباؤ اور ہوا کی رفتار کے بارے میں معلومات اِکٹھی کی جاتی ہے۔ بعض سائنس دانوں کا خیال ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی سے بڑے طوفانوں پر اثر مرتب ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ زمین کا ماحول اِن طوفانوں کو بدتر بنا رہا ہے،  جب کہ کچھ اور سائنس داں اِس نظریے سے اختلاف کرتے ہیں۔

http://www.voanews.com/urdu/news/health-science/Science_Hurricanes_19Sept11-130159888.html